حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا شیخ جواد حسین صاحب قبلہ (بانی مدرسہ جامعہ عسکریہ، ھنگو ضلع گوہاٹ اور مدرسہ باب العلم، مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ 10؍جنوری 1903ء بمطابق 12؍شوال المکرم 1320میں قصبہ مبارکپور، ضلع اعظم گڑھ میں ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔
قرآن مجید، اردو، فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں حاصل کی۔ اس کے بعد محلہ میں اہل سنت کے مدرسہ میں داخلہ لیا، مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ ایمانیہ بنارس کا رخ کیا۔ اس مدرسہ میں مولانا سید مناظر حسین صا حب قبلہ (صدر الا فاضل)، مولانا سید محمد سجاد صاحب قبلہ اور مولانا سید علی جواد صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ جیسے اساتذہ سے کسب تلمذ کیا۔
مرحوم و مغفور اس کے بعد 1919ء میں مدرسہ سلطان المدارس لکھنؤ پہنچے اور وہاں سے سند الافاضل اور صدر الافاضل امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔
سلطان المدارس لکھنؤ میں آپ کے اساتذہ کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ مولانا سید محمد رضا فلسفی صاحب قبلہ اعلیٰ اللہ مقامہ ۲۔ مولانا سید عالم حسین ادیب صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ ۳۔ مولانا سید محمد باقر مجتہد صا حب قبلہ اعلیٰ اللہ مقامہ ۴۔ مولانا سید محمد ہادی مجتہد صا حب اعلیٰ اللہ مقامہ
لکھنؤ پہنچنے کے بعد مرحوم و مغفور کی رسائی لکھنؤ کے عربی کالج میں بھی ہوئی۔ عربی ادبیات اور علم کلام کا کورس وہاں مکمل کیا، اس کے علاوہ حکیم سید مظفر حسین صاحب سے علم طب حاصل کیا، جس میں وہ مہارت رکھتے تھے۔، آپ نے بھی علم طب میں کمال حاصل کیا اور کچھ ایسے نسخے تجویز کئے ہیں، جو آج کے دور میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔
1925ء میں مدرسۃ الواعظین میں داخل ہوئے ۔ وہاں کا تین سالہ کورس مکمل کرلیا اور اپنے اساتذہ سے کامیاب طلبہ کا سہرا اپنے سر لیا۔ فن مناظرہ میں مہارت حاصل کی۔ بزرگ اساتذہ ملک الناطقین علامہ سید سبط حسن صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ اور مولانا سید ابو الحسن صاحب قبلہ سے کسب فیض کیا جو کہ سید العلماء علامہ علی نقی صاحب قبلہ کے پدر بزرگوار تھے۔
1928ء سے 1930ء تک ممبئی میں مصروف تبلیغ رہے، جہاں انہوں نے عوام کے مختلف پیچیدہ مسائل کا حل پیش کیا۔ ممبئی میں جہاں آپ مصروف تبلیغ تھے، وہاں پر انہیں اخلاق حسنہ کے عظیم مرتبہ پر فائز جانا جاتا تھا، عوام کے مسائل کے تئیں ہمیشہ بیدار رہتے تھے۔ ممبئی میں ہی اپنے حبیب کدہ پر ہر شب و روز لوگوں کی فریاد سنتے تھے اور ممکنہ طور پر لوگوں کی حاجات کو پورا کرتے تھے۔ ہر موسم کے لحاظ سے ضروری اشیاء اور راشن غریب کنبوں میں بلا تفریق مذہب و ملت تقسیم کرتے تھے۔
1931ء میں دہلی، آگرہ، میرٹھ اور مظفر نگر کا تبلیغی دورہ کیا۔ 1932ء میں تبلیغ دین کی غرض سے علی پور گئے، جہاں پر انہوں نے متعدد لوگوں کو اپنے اخلاق سے مسلمان کیا۔ اس بات کے شاہد خود علی پور کے عوام ہیں۔ 1934ء سے لیکر 1935ء تک جھنگ میں تبلیغی فرائض انجام دیئے۔ 1936ء میں رنگون میں ’’اہمیت دین اسلام ‘‘ کے عنوان سے مرکزی عشرہ پڑھا۔ ان کا یہ عشرہ اتنا مقبول ہوا کہ بعض لوگوں کو زبان زد ہوگیا اور اسی عشرے کی وجہ سے ان کے علم کی قابلیت عوام میں اجاگر ہو گئی۔ 1936ء میں مدرستہ الواعظین کی طرف سے آپ کو بحیثیت مفتی پارہ چنار، صوبہ سرحد بھیجا گیا جہاں آپ نے چار برس تک بے لوث خدمات انجام دیں۔
شمالی علاقہ میں مفتی اور قاضی الشریعہ کے عہدے پر مقرر ہوئے اور مسلسل چار سال کی مدت تک زمہ دارانہ خدمت انجام دی۔ 1942ء میں وہاں سے ہنگو منتقل ہوگئے اور وہاں بھی تبلیغ دین اور ارشاد و ہدایت کے کام میں مشغول رہے۔ دینی و مذہبی امور کی زمہ داری کے علاوہ امور سیاست میں بھی متعدد بار حصہ لیا۔ ھنگو میں ہی آپ کو ضلع خطیب کے عہدے پر سرفراز کیا گیا اور آج بھی مولانا و علامہ خورشید انور جوادی صاحب قبلہ آپ ہی کے خاندان سے ضلع خطیب کے اس عہدے پر فائز ہیں۔
مولانا علامہ جواد حسینی پاکستان کے ھنگو شہر میں جامعہ ’’ عسکریہ‘‘ قائم کیا اور ہندوستان کے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ مبارک پور میں ایک علمی درسگاہ مدرسہ ’’باب العلم ‘‘ 21؍ مارچ 1929ء میں قائم کیا۔
عالی جناب مولانا سید مرتضی حسین (صدر الافاضل) نے اپنی کتاب مطلع الانوار سن اشاعت (1981ء) میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:
مولوی جان محمد صاحب (چھوٹے میاں) کے پوتے مولانا الحاج شیخ جواد حسین صاحب صدر الافاضل، مبلغ مدرسۃ الواعظین،لکھنو ایک مدت دراز سے پنجاب و سرحد میں تبلیغ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
موصوف ( مولانا الحاج شیخ جواد حسین صاحب) نے اپنے قصبہ میں بھی علمی یادگار قائم کی یعنی (1929ء میں مدرسہ’’ باب العلم‘‘ قائم کیا جو اب تک باقی ہے۔ مولانا جواد حسین صاحب ابھی نومبر 1977ء میں مبارکپور گئے اور وہ وہاں سے’’ شجرہ مبارکہ‘‘ یعنی تذکرہ علما مبارک پور لائے اور کتاب مجھے مستعار دی۔ اس کتاب میں ہے۔
تاریخ از تصنیف جناب مولوی سید محمد صاحب دام ظلہ
مولوی جان محمد کہ نظیرش بجہاں
چشم گردوں ہمہ دید وہمہ دانست بحال
عالم و معدن اخلاق و عزیز دولہا
زاہداد عابد و دیں پرور و بوذر بمثال
یک جہاں شاہد فضلش ہمہ خاص وہمہ عام
در کمالش یکسی ہیچ نہ قلیل است و نہ قال
بودبست و یکم از ماہ جمادی الاولیٰ
کرد آہنگ سفر جانب ربّ متعال
یا الٰہی بنام مسکن طبیب باشد
این دعا از من و آئیںزسمک تا بہلال
آنم این مصرع تاریخ بقبرش بنوشت
شد بفردوس جنان راہ نماپیر و آل
۵۱۳۱۱
مولانا شیخ جواد حسین صاحب نے قصبہ مبارکپور اور ممبئی اس کے علاوہ برما میں مسیحیت (عیسائی )کے ایک سرگرم اور فعال گروہ سے مناظرہ کیا اور ان کو دندان شکن جواب و کلمہ شکن شکست دی جس کی وجہ سے مسیحیت گروہ کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان کی وفات 8؍دسمبر 1998ء بمطابق 19؍شعبان المعظم 1419ھ میں ہوئی۔
سلسلہ نصب مولانا شیخ جواد حسین طاب ثراہ
مولانا و علامہ الحاج جان محمد( چھوٹے میاں) ابن خیر اللہ ، ابن عبد المجید ، ابن جواد حسین صاحب قبلہ و کعبہ طاب ثراہ۔